Saturday 9 March 2013

صحیفہ امام رضا علیہ السلام ۳

فصل سوم
 
فصل سوم
توحید کے متعلق آنحضرت کا کلام
کلیات توحید میں۔
کلیات توحید میں۔
کلیات توحید میں۔
خدا اور انسان کے مشترک ناموں کے معانی کے درمیان فرق کے متعلق۔
اسمائے الٰہی کی حدیث میں۔
جہان کے حادث ہونے اور اُس کے بنانے والے کے اثبات کے متعلق۔
جہان کے حادث ہونے کی دلیل کے متعلق۔
کون و مکان کے متعلق۔
خدا کی روٴیت کے ابطال کے متعلق۔
روٴیت ِ خدا کی نفی کے متعلق۔
خدا کیلئے جسم قرار دینے کی نہی کے متعلق۔
خدا کی اُس کے غیر کے ساتھ توصیف کرنے کی نہی میں جس کے ساتھ خود خدا نے توصیف کی ہے۔
مشیت و ارادہ کے متعلق۔
مشیت و ارادہ کے متعلق۔
قدرت اور ارادہ کے متعلق۔
اس بارے میں کہ خداجس کو چاہتا ہے، آگے پیچھے کرسکتا ہے۔
اُس کے متعلق جو خدا کی مخلوق خدا کے ساتھ تشبیہ دیتا ہے۔
خدا کی معرفت کے کم ترین مرتبہ کے بارے میں۔
انسان کے اپنے اعمال میں اختیار رکھنے کی کیفیت کے بیان میں۔
انسان کے اپنے اعمال میں اختیار رکھنے کی کیفیت کے بیان میں۔
انسان کے اپنے اعمال میں اختیار رکھنے کی کیفیت کے بیان میں۔
انسان کے اپنے اعمال میں اختیار رکھنے کی کیفیت کے بیان میں۔
انسان کے اپنے اعمال میں اختیار رکھنے کی کیفیت کے بیان میں۔
انسان کے اپنے اعمال میں اختیار رکھنے کی کیفیت کے بیان میں۔
اُس کسی کے متعلق جو جبر کا قائل ہے۔
سورة توحید کی فضیلت میں۔
اس کلامِ پیغمبر کے متعلق: خدا نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔
تناسخ کے ابطال میں۔

۱۔ کلیات توحید کے متعلق آنحضرت کا کلام
روایت ہے کہ جب مامون نے ارادہ کیا کہ امام رضا علیہ السلام کو ولی عہدی کیلئے منصوب کیا جائے تو بنی ہاشم کو جمع کیااور کہا: میں چاہتا ہوں کہ خلافت کو اپنے بعد امام رضا علیہ السلام کے سپرد کردوں۔ بنی ہاشم نے امام علیہ السلام کے ساتھ حسد کیا اور کہا: تم چاہتے ہو کہ اُس شخص کو خلافت دو جو اس بارے میں بالکل بے خبر ہے۔
اگر تو چاہتا ہے کہ اُن کی لاعلمی تجھ پر ظاہر ہو تو کسی کو بھیج کو بلا تاکہ وہ آئیں ۔ مامون نے آنحضرت کی طرف کسی کو بھیجا۔ امام علیہ السلام تشریف لائے۔ بنی ہاشم نے عرض کیا: اے اباالحسن ! منبر پر جائیں اور خدا کی توصیف کریں ، اس طرح کہ ہم اس پر اُس کی عبادت کرسکیں۔
امام علیہ السلام منبر پر گئے۔ تھوڑی دیر کیلئے بیٹھے اور غور کیا۔ کھڑے ہوئے۔ خداکی حمدوثناء کے بعد پیغمبر اور آلِ پیغمبر پر درود بھیجنے کے بعد اس طرح گفتگو کی:
سب سے پہلے خدا کی عبادت اُس کی معرفت ہے اور خدا کی اصل معرفت اُس کی توحید ہے۔ اُس کی توحید کا کمال اس میں ہے کہ صفات(زائد بر ذات) کی نفی کی جائے کیونکہ عقلیں گواہیں دیتی ہیں کہ ہر صفت اور ہر موصوف اُس کی مخلوق ہے۔ ہر موصوف گواہی دیتا ہے کہ اُس کا کوئی خالق ہے۔ جو اس طرح کی صفت نہیں رکھتا۔ اس طرح کی صفت کے ساتھ موصوف نہیں ہے۔ ہر صفت و موصوف ایک دوسرے کے ساتھ ارتباط کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ ارتباط گواہی دیتا ہے اُس کے حدوث کے متعلق اور حدوث کسی کے ازلی نہ ہونے کی گواہی دیتا ہے کیونکہ کسی حادث شے کا ازلی ہونا محال ہے۔پس جس نے خد اکو تشبیہ کے ساتھ جاننے کی کوشش کی تو اُس نے کچھ نہ جانا۔ جو خدا کو اُس کی حقیقت کے ساتھ جاننا چاہے، اُس نے خدا کو ایک نہیں جانا۔ جو کوئی خدا کیلئے مثال پیش کرے، وہ خدا کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔ جو اُس کی عنایت کا تصور کرے، اُس نے اُس کی تصدیق نہیں کی۔ جس نے اُس کی طرف اشارہ کیا، اُس نے اُس کا ارادہ نہیں کیا۔ جس نے اُس کی کسی چیز کے ساتھ تشبیہ کی، اُس نے اُس کا قصد نہیں کیا۔ جو کوئی اُس کی جزیت کا قائل ہوا، وہ اُس کیلئے ذلیل و خوار نہ ہوا۔جو کوئی اُس کو وہم وخیال میں لائے، اُس نے اُس کا ارادہ نہیں کیا۔ جو خود بخود پہچانا جائے، وہ مصنوع ہے اور بنا ہوا ہے۔ جو کسی دوسرے کی وجہ سے قائم ہو ، وہ معلول ہے۔ اُس کے وجود اور خلقت کیلئے دلیل لائی جائے۔ عقل کے ذریعے اُس کی معرفت کیلئے راہ تلاش کی جائے اور حجت ِ خدا ہر ایک کی فطرت میں موجود ہے۔
خدا کا اپنی مخلوق کو پیدا کرنا اُس کے اور مخلوق کے درمیان ایک پردہ ہے۔ خدا کا اپنی مخلوق سے مختلف ہونا خدا اور اُس کی مخلوق کے ساتھ جدائی ہے۔ خدا کا خلق کرنے میں ابتداء کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کیلئے ابتداء نہیں ہے کیونکہ جس کیلئے ابتداء ہو، وہ اس سے عاجز ہوتا ہے کہ کسی کی ابتدء کرسکے۔خدا کا مخلوق کو آلات و اسباب دینا اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کے اسباب وآلات نہیں ہیں کیونکہ آلات و اسباب مادی چیزوں کی محتاجی پر دلیل ہوتے ہیں۔
خدا کے نام اُس سے تعبیر ہیں(نہ کہ عین ذات) اور خدا کے افعال اُس کی معرفت کا ذریعہ ہیں۔ اُس کی ذات اُس کی عین حقیقت ہے۔ اُس کی حقیقت اُس کے اور اُس کی مخلوق کے درمیان جدائی ہے۔ اس کی غیریت اُس کے غیر کو محدود کرنے والی ہے۔ جیسا کہ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ اُس کا غیر محدود ہے۔
جس نے خدا کا وصف بیان کیا، وہ خدا سے جاہل رہااوراُس نے خدا پر تجاوز کیا جس نے خدا کے ساتھ کسی چیز کو شامل کیا۔اس نے غلطی کی جس نے اُس کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کی۔جو یہ کہتا ہے کہ خدا کیسا ہے، اُس نے تشبیہ دی اور جو یہ کہتا ہے کہ خدا اس طرح کا ہے، وہ اس کیلئے علت و وجہ ڈھونڈنے کے درپے ہوگیا۔ جو یہ کہے کہ خدا کس زمانے میں وجود میں آیا، اُس نے اُسے زمانے کے ساتھ محدود کردیا۔ جو یہ کہتا ہے کہ خدا کس میں ہے، اُس نے اُسے کسی چیز کے اندر فرض کیا۔ جو یہ کہتا ہے کہ خدا کس وقت تک ہے، اُس نے اُس کیلئے نہایت فرض کی۔
جو یہ کہتا ہے کہ وہ کس وقت تک ہے، اُس نے اُسے وقت کے ساتھ محدود کردیا اور اُس کے لئے نہایت فرض کی۔ وہ اس کیلئے مدت کا قائل ہوا۔جو اُس کے لئے مدت کا قائل ہے، اُس نے اُس کا تجزیہ کیا ہے اور جس نے اُس کا تجزیہ کیا ، اُس نے اُس کا وصف بیان کیا ۔ جس نے اُس کی توصیف کرنے کی کوشش کی اور چیزوں کی مانند قرار دیا، جس نے ایسا کیا وہ حق کے راستہ سے منحرف ہوا اور کافر ہوگیا۔
مخلوق کی تبدیلی کے ساتھ خدا میں تبدیلی نہیں آتی۔ کسی محدود کی تحدید کے ساتھ خدا محدود نہیں ہوتا۔ خدا ایک ہے۔ نہ تو کسی مقام میں شمار کرنے سے وہ ظاہر ہے اور نہ اُسے آنکھ کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اُس کے ساتھ ملاقات کی جاسکتی ہے ۔ خدا تجلی اور ظہور رکھتا ہے۔ نہ ایسے کہ دیکھا جا سکے ، نہ ایسے کہ ظاہر سے باطن کی طرف منتقل ہو۔ مخلوق سے جدا اور سباین سے نہ مسافت کے ساتھ۔ اپنی مخلوق کے نزدیک ہے، نہ جہت ِ مکان کے لحاظ سے۔
وہ لطیف ہے نہ جسمانیت کے ساتھ۔ وہ موجود ہے نہ اس طرح کہ اُس کا وجود عدم کے بعد ہو۔ امور کو انجام دینے والا ہے نہ جبر و ظلم کے ساتھ۔بغیر فکر کے امور کی اندازہ گیری کرتا ہے۔ بغیر کسی حرکت کے امور کی تدبیر کرتا ہے۔ بغیر اس کے کہ ذہن میں لائے، ارادہ کرتا ہے۔ درک کرنے والا ہے بغیر اس کے کہ کوشش کرے ،سننے والا ہے بغیر آلہ و اسباب کے، دیکھتا ہے دیکھنے والی چیز کے بغیر۔
زمانے کے ساتھ مربوط نہیں ہے۔ مکان اُس کو اپنے اندر نہیں لے سکتے۔ نیند اور اونگھ اُسے نہیںآ تی۔ اوصاف اُس کو محدود نہیں کرتا۔ آلات و اسباب اُسے کوئی نفع نہیں دیتے۔
اُس کا وجود زمانے سے پہلے ہے۔ اُس کا وجود عدم سے سبقت رکھتا ہے۔ اُس کا ازلی ہونا ہر ابتداء پر مقدم ہے۔ جب اُس نے آدمی کے شعور کو درک کرنے کی قدرت دی تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے لئے آلاتِ شعور نہیں ہیں کیونکہ اُس نے چیزوں کے جوہر اور ماہیت کو پیدا کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ اُس کیلئے ممکنات کی طرح ماہیت نہیں ہے کیونکہ اُس نے چیزوں کے درمیان ضدیں پیدا کی ہیں۔ معلوم ہوا کہ اُس کیلئے کوئی ضد نہیں ہے کیونکہ اُس نے امور کے درمیان مقارفت قرار دی ہے۔ معلوم ہوا کہ اُس کے لئے کوئی قرین اور ساتھی نہیں ہے۔ اُس نے روشنی کو تاریکی کی ضد ،ظاہر کو پوشیدہ کی ضد، خشک کو تر کی ضد اور سردی کو گرمی کی ضد قرار دیا ہے۔
خدا نے اُن چیزوں کے درمیان الفت اور محبت پیدا کی جن کے درمیان کوئی تعلق نہ تھا۔ جو چیزیں آپس میں نزدیک تھیں، اُن کے درمیان جدائی قرار دی۔ یہ جدائی دلالت کرتی ہے کہ کوئی جدائی ڈالنے والا موجود ہے اور یہ دوستی دلیل ہے کہ اس پر کہ اس دوستی کے پیدا کرنے والا کوئی ہے اور یہ ہے اللہ تعالیٰ کا قول:
"ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑاپیدا کیا تاکہ تم تذکر حاصل کرو"۔
معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے قبل و بعد نہیں ہے۔ غرائض کا پیدا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان غرائض کے ایجاد کرنے والے کیلئے کوئی غرض نہیں ہے کیونکہ اُس نے چیزوں کے درمیان تفاوت اور فرق پیدا کیا ہے۔معلوم ہوا کہ ان کے پیدا کرنے والے کیلئے تفاوت اور فرق نہیں ہے کیونکہ اس نے ہر چیز کیلئے زمانہ بنایا ہے۔ معلوم ہوا کہ خدا کیلئے زمانہ نہیں ہے۔ بعض چیزیں دوسری بعض چیزوں سے پردے میں ہیں۔ معلوم ہوا کہ خدا اور چیزوں کے درمیان کوئی حجاب اور پردہ نہیں ہے۔
وہ اُس وقت بھی رب تھا جب کوئی پرورش پانے والا نہیں تھا اور وہ اُس وقت بھی معبود تھا جب کوئی اُس کی عبادت کرنے والا نہ تھا۔ وہ اُس وقت بھی عالم اور دانا تھا جب کوئی معلوم چیز اور جانی ہوئی نہ تھی۔ وہ اُس وقت بھی خالق تھا جب کوئی مخلوق نہ تھی۔ وہ اُس وقت بھی حقیقت ِ خالقیت رکھتا تھا جب کسی چیز کو ابھی اُس نے خلق نہیں کیا تھا۔
وہ کس طرح ایسا نہ ہو جبکہ وہ کسی چیز سے غائب نہ تھا۔ کوئی تبدیلی اُس میں واقع نہیں ہوتی۔ اُمید اور خواہش اُس میں موجود نہیں ہے۔ وہ کسی زمانے کے ساتھ محدود نہیں ہے۔ وہ کسی چیز کا ساتھی نہیں ہے۔ چیزوں کو آلات و اسباب محدود کردیتے ہیں اور ضرورت اور محتاجی کو ثابت کرتے ہیں۔ اسباب و آلات اپنے کی مثل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ چیزوں کا قدیم ہونا اُن کے حدوث کی نفی کرتا ہے اور ازلی ہونے سے روکتا ہے اور اس میں کوئی کمال نہیں ہے۔
اُس نے چیزوں کے درمیان جدائی ڈالی تاکہ اس بات پر دلالت کرے کہ کوئی جدائی ڈالنے والا ہے۔ چیزوں کے درمیان دوری پیدا کی تاکہ دوری پیدا کرنے والا پر دلالت کرے۔ چیزوں کے خالق نے عقلوں کیلئے تجلی پیدا کی اور ان کے ذریعے سے آنکھوں کے ذریعے دیکھنے سے پردے میں چلا گیا۔اُن کے ذریعے اوہام کو متوجہ کیا اور ان میں خدا کے غیر کو ثابت کرنے لگے۔ انہیں سے دلیلیں لی گئیں اور اُن سے اقرار لیا گیا۔ عقلوں کے ذریعے خدا کے ساتھ اعتقاد مضبوط ہوتا ہے۔ افراد کے ذریعے ایمان کامل ہوتا ہے۔ دینداری معرفت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ معرفت اخلاص کے بغیر میسر نہیں ہوتی۔ خدا کو کسی چیز کے ساتھ مشابہہ قرار دینے سے اخلاص حاصل نہیں ہوتا۔ اگر خدا کیلئے مخلوق کے اوصاف کو ثابت کیا جائے تو تشبیہ کی نفی نہیں کی جاسکتی۔
پس جو کچھ مخلوقات میں تھا، وہ خالق میں نہ تھا اور جو کچھ مخلوقات میں ممکن ہے، وہ خالق میں نہیں ہے۔ خدا میں سکون کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ سب چیزیں خدا میں کس طرح ممکن ہیں جبکہ یہ سب چیزیں اُس نے جاری کی ہیںَ تمام چیزیں اُس کی طرف لوٹتی ہیں۔ اگر وہ اس طرح ہو تو اُس کی ذات میں تغیر و تبدل واقع ہوجائے گا۔ اُس کی حقیقت مرکب ہوجائے گی۔ ترکیب ازلی ہونے سے مانع ہے اور اُس میں خالقیت کا معنی تصور نہیں ہوسکتا۔اگر اُس کیلئے ہم انتہا کے قائل ہوجائیں تو اُس کے لئے آغاز ضرور ہوگا۔ اگر اُس کیلئے یہ تصور کیا جائے کہ وہ مکمل ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ اُس کے وجود میں کوئی کمی بھی ہے۔
وہ کس طرح ازلیت کے لائق ہو سکتا ہے جو تبدیلی سے پاک نہ ہو۔ وہ کس طرح چیزوں کو ایجاد کرسکتا ہے جو خود ایجاد ہونے سے کوئی مانع نہیں رکھتا۔ جب بھی ایسا ہوگا تو اُس میں مصنوعیت کی علامات موجود ہوں گی اور یہ چیز اُس کی خالقیت پر دلیل کی بجائے اُس کے موجود ہونے پر دلیل ہوگی۔
اس وجہ سے مقام گفتگو میں اُس کی خالقیت پر دلیل نہیں ہے اور اس بارے میں پیش آنے والے سوالات کا کوئی جواب نہ ہوگا۔ اُس کیلئے حقیقت میں کوئی تعظیم نہ ہوگی۔ مخلوق کے درمیان اُس کا ظاہر ہونا ظلم نہ ہوگا مگر یہ کہ ازلی ہونا اس چیز سے مانع ہے کہ اُس کے لئے دو ہوناتصور کیا جائے اور یہ کہ جس کیلئے ابتداء نہیں ہے، اُس کیلئے ابتداء پیدا کی جائے۔ عظیم و بلند خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔
وہ جھوٹ کہتے ہیں جو خدا کیلئے شریک کے قائل ہیں۔ وہ گمراہ ہوگئے اور حق سے دور ہوگئے اور بہت بڑی گمراہی میں پڑگئے۔ محمد و آلِ محمد پر ، جو پاک ہیں، درود ہو۔(عیون الاخبار:ج۱،ص۱۶۹۔توحید:۳۴)۔

۲۔ کلیات توحید میں آنحضرت کا کلام
تمام تعریفیں اُس اللہ کیلئے جس نے اپنی حمد کا الہام اپنی مخلوق کی طرف کیا اور اپنی ربوبیت کی معرفت اُن کی فطرت میں رکھی۔ اپنے خلق کرنے سے اپنے وجود پردلالت کی اور اپنی مخلوق کے پیدا کرنے کے ذریعے اپنی ازلیت پر رہنمائی کی۔ اپنی مخلوق کے ہم مثل رکھنے کے ساتھ اپنی بے مثلی پر دلالت کی۔اپنی نشانیوں کو اپنی قدرت پر گواہ بنایا۔ اُس کی ذات صفات کو قبول نہیں کرتی(کیونکہ تمام صفات اُس کی عین ذات کے کمال ہیں)۔آنکھیں اُس کو دیکھنے سے اور وہم اُس کے احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔
اُس کے وجود کیلئے کوئی ابتداء نہیں ہے اور اُس کی بقاء کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ آلات و اسباب اُس کا ادراک نہیں کر سکتے ۔ پردے اُس کو چھپا نہیں سکتے۔ اُس کے اور اُس کی مخلوقات کے درمیان پردہ خود اُس کی مخلوق ہے کیونکہ جو چیز اُس کی مخلوق کیلئے امکان رکھتی ہے، وہ اُس کیلئے منع ہے اور جو چیز اُس کے لئے ممنوع ہے، وہ مخلوق کے لائق ہے۔اس کے علاوہ بنانے والے اور بننے والے کا فرق بھی موجود ہے۔ اسی طرح پالنے والے اور پالے ہوئے ،محدود کرنے والے اور محدود کئے ہوئے کے درمیان فرق ہے۔
وہ ایک ہے نہ کہ عددی معنی کے لحاظ سے(یعنی مرکب نہیں ہے)۔ وہ پیدا کرنے والا ہے، نہ اعضاء کی حرکت کے ساتھ(یعنی جس طرح ہر بنانے والا اپنے اعضاء کو حرکت دیتا ہے) ۔ وہ بغیر اسباب کے دیکھتا ہے۔ بغیر آلات کے سنتا ہے۔ جسم کے محسوس ہوئے بغیر وہ حاضر ہے۔ وہ ایک طرف ہے ، نہ اس معنی کے ساتھ کہ مسافت کی دوری رکھتا ہو۔ وہ باطن ہے، نہ اس معنی کے ساتھ کہ وہ کسی پردہ کے نیچے ہے۔ وہ ظاہر ہے، نہ
اس معنی کے ساتھ کہ وہ کسی چیز کے سامنے ہے۔ وہ ایسی ذات ہے کہ اُس کی حقیقت نے تیز دیکھنے والی آنکھوں کومایوس کردیا ہے۔ اُس کے وجود نے خاطراتِ ذہنی کو جڑوں سے اکھیڑ کر رکھ دیا ہے۔
دین کی ابتداء اُس کی معرفت کے ساتھ ہے اور معرفت کا کمال اُس کو ایک ماننے میں ہے۔ ایک ماننے کا کمال تمام صفات(زائد بر ذات) کی اُس کی ذات سے نفی کرنا ہے کیونکہ ہر صفت گواہی دیتی ہے کہ وہ اُس کی غیر ہے۔ ہر موصوف گواہی دیتا ہے کہ وہ صفت کا غیر ہے۔ ان دو کی گواہی کہ یہ دو چیزیں ہیں ، کہ ان میں ازلیت نہیں ہے( یعنی اگر ہم قائل ہوجائیں کہ اُس کی صفات غیر ذات ہیں اور ذات پر زائد ہیں تو ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ اُس کی ذات میں ترکیب ہے اور قدیم سے تعددہے اوریہ ایک دوسرے کے محتاج ہیں)۔ جو بھی خدا کی توصیف کرتا ہے، وہ خدا کو محدود کرتا ہے اور جو اُسے محدود کرتا ہے، وہ اُسے معدود کرتا ہے اور جوکوئی اُسے گننے میں لائے، اُس نے اُس کی ازلیت کو باطل کردیا۔ جو کہے کہ وہ کس طرح کا ہے، وہ اُس کے وصف کو طلب کرتا ہے۔ جو کہے کہ وہ کس میں ہے، اُس نے اُس کو کسی چیز میں ڈالا ہے۔ جو کہے کہ وہ کس پر ہے، اُس نے اُسے پہچانا ہی نہیں۔ جو کہے کہ وہ کہاں ہے، اُس نے جگہ کو اُس سے خالی جانا۔ جو یہ کہے کہ اُس کی ذات کیا ہے، اُس نے اُس کی تعریف کی اور جو یہ کہے کہ وہ کب تک ہے، اُس نے اُس کو متناہی(نہایت والا) جانا۔
وہ اُس وقت سے عالم ہے جب کوئی معلوم نہ تھا، وہ اس وقت سے خالق ہے، جب کوئی مخلوق نہ تھی(پس وہ ہمیشہ پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے)۔ وہ اُس وقت بھی پروردگار تھا، جب کوئی پلنے والا نہ تھا، ہمارے رب کی اسی طرح توصیف کی جاتی ہے ،وہ وصف بیان کرنے والوں کے وصف سے بلند تر ہے۔(توحید:۵۶)

۳۔ کلیات توحید میں آنحضرت کا کلام
تمام تعریفیں اُس خداکے لئے جو اس جہان کی ابتداء اور اس جہان کا خالق ہے۔ قوت و طاقت والا ہے۔جو اپنے بندوں کا رکھوالا ہے۔ اپنے بندوں پر تسلط رکھتا ہے۔ اس کی حکمرانی کے سامنے ہر چیز سرجھکائے ہوئے ہے۔ اُس کی عزت کے سامنے ہر چیز ذلیل ہے۔ ہر چیز اُس کی قدرت کو تسلیم کئے ہوئے ہے۔ اُس کی سلطنت اور عظمت کے سامنے ہر چیز جھکتی ہے۔ اُس کا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ وہ ہر چیز کی تعداد کو جانتا ہے۔ بڑے بڑے کام اُس کو تھکاتے نہیں ہیں اور چھوٹی چیزیں اُس کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہوتیں۔
دیکھنے والوں کی آنکھیں اُس کو درک نہیں کر سکتیں۔ وصف بیان کرنے والوں کی توصیف اُس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ خلق اور حکم اُسی کیلئے ہے۔ آسمانوں اور زمینوں میں بلند مثال اُسی کیلئے ہے۔ وہ عزت والا، جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ (بحار:ج۴،ص۲۴۳)۔
۴۔ آنحضرت کا کلام خدا اور انسانوں کے مشترک ناموں کے درمیان فرق کے متعلق
یاد رکھو! خدا خیر اور نیکی کا تجھے علم دے۔ خدا تعالیٰ قدیم ہے اور قدیم ہونا اُس کیلئے ایک صفت ہے جو عقل مند کی رہنمائی کرتی ہے کہ اُس کے پہلے کوئی نہ تھا۔ اُس کے ہمیشہ رہنے میں اُس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ پس صاحبانِ عقل کے اس اعتراف کے بعد کہ وہ اس صفت کو درک نہیں کر سکتے، ہمارے لئے روشن ہوگیا کہ خدا کے پہلے کوئی چیز نہ تھی۔ اُس کے ہمیشہ باقی رہنے میں اُس کے ساتھ کوئی نہیں ہے۔
پس جو یہ کہتا ہے کہ اُس سے پہلے یا اُس کے ساتھ کوئی چیز تھی، اُس کی بات باطل ثابت ہوئی کیونکہ اگرکوئی چیز ہمیشہ اُس کے ساتھ ہو تو وہ اُس کا خالق نہ ہوگا کیونکہ وہ ہمیشہ خدا کے ساتھ تھی۔ خدا اُس کا خالق کس طرح ہو سکتا ہے جو ہمیشہ اُس کے ساتھ ہو۔ اگر کوئی چیز اُس سے پہلے ہو تو وہ اوّل ہو گی نہ یہ او ر جو اوّل ہوگا وہ اس لائق ہے کہ وہ خالق ہو نہ دوسرا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے ناموں کے ساتھ اپنے اوصاف بیان کئے ہیں۔مخلوقات کو پیدا کیا۔ اُن کی عبادت اور امتحان کو طلب کیا۔ اُن سے کہا کہ مجھے ان ناموں کے ساتھ پکارو۔ پس اپنے آپ کو سننے والا، دیکھنے والا، طاقتور ،قائم، بولنے والا، ظاہر، باطن، لطیف، آگاہ، قوی، عزیز ، حکیم و دانا اور اس طرح کے دوسرے نام دئیے۔
پس جب غلط قسم کے لوگوں نے اور جھٹلانے والوں نے ان ناموں کو دیکھا اور دوسری طرف سے ہم جیسے افراد سے سن چکے تھے کہ ہم خدا کے متعلق خدا سے خبر دیتے تھے کہ اُس جیسی کوئی چیز نہیں ہے اور کوئی مخلوق بھی اُس کی طرح نہیں ہے تو کہنے لگے کہ تمہارا تو عقیدہ مثل و نظیر نہیں رکھتا۔
پس کس طرح خدا کے ناموں میں تم اپنے آپ کو شریک کرتے ہو اور اپنے آپ کو اس کا ہمنام کرتے ہو؟ پس یہ چیز اس بات کی دلیل ہے کہ تم خدا کے تمام یا بعض حالات میں شریک ہو کیونکہ اچھے اچھے ناموں کو تم نے اپنے لئے بھی جمع کررکھا ہے۔
ہمارا جواب ایسے لوگوں کیلئے یہ ہے : بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنے ناموں میں سے معانی کے اختلاف کے ساتھ نام دئیے ہیں جیسا کہ ایک نام دو مختلف معانی رکھتا ہے۔اس مطلب پر دلیل لوگوں کا یہ کہنا ہے جو ان کے نزدیک قبول شدہ اور مشہور ہے اور خدا نے بھی اپنی مخلوق کو اس کے ذریعے خطاب کیا ہے۔ جس چیز کو وہ سمجھتے ہیں، اُس کے ساتھ خطاب کیا ہے تاکہ جو وہ ضائع کرچکے ہیں، اُس کی نسبت اُن پر حجت قائم ہوسکے۔ کبھی کسی مرد کو کتا، گدھا، گائے، شیر کہا جاتا ہے؟ یہ تمام مرد کے حالات کے خلاف ہوتا ہے ۔ یہ نام جن معنی کے ساتھ ان کیلئے استعمال ہوتے ہیں، اس کیلئے استعمال نہیں کئے گئے کیونکہ انسان شیر اور کتا نہیں ہے۔خدا تجھ پر رحمت کرے ، اس کو سمجھ لے۔
اللہ تعالیٰ کو عالم کہا جاتا ہے۔ یہ نام علم حادث کی وجہ سے نہیں ہے کہ اُس کے ذریعے سے چیزوں کو جانتا ہے۔ آئندہ کے معاملات کی حفاظت کرتا ہے اور پیدا کرنے اور تباہ کرنے میں غوروفکر کرتا ہے۔ جو کچھ اپنی مخلوق میں سے ختم کیا ہے، اُس میں اُسی کے ذریعے مدد طلب کرے کہ اگر وہ علم اُس کے نزدیک حاضر نہ ہوگا اور اُس سے غائب ہوگا تو وہ کچھ نہیں جانتا ہوگا، کمزور ہوگا۔ جیسا کہ مخلوقات میں سے صاحبانِ علم حاضرات کو دیکھتے ہیں کہ اُن میں علم کے پیدا ہونے کی وجہ سے اُن کو عالم کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے قبل وہ جاہل تھے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ علم ان سے دور ہوجاتا ہے اور اُن کو جہالت کی طرف لے جاتا ہے۔ خدا کو عالم کہتے ہیں کیونکہ وہ کسی چیز سے نادان نہیں ہے۔ جاہل نہیں ہے۔
پس خالق اور مخلوق اسم عالم میں شریک ہیں اور معنی میں مختلف ہیں جیسا کہ تم جان چکے ہو۔ہمارے پروردگار کو سمیع(سننے والا) کہا جاتا ہے۔ اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ کان کا سوراخ رکھتا ہے اور اُس کے ذریعے سے وہ سنتا ہے۔ اُس کے ذریعے سے وہ کوئی چیز نہیں دیکھتا۔ہمارے کان کے سوراخ کی طرح کہ ہم اُس کے ذریعے سے سنتے ہیں۔ لیکن اُس کے ذریعے سے دیکھ نہیں سکتے۔ لیکن خدا خود خبر دیتا ہے کہ کوئی آواز اُس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ ایسے نہیں ہے جیسے ہم نام لیتے ہیں ۔ پس وہ سمیع(سننے والا) کے نام میں ہمارے ساتھ شریک ہے لیکن معنی مختلف ہے۔
اسی طرح اُس کا دیکھنا آنکھ کے سوراخ کے ساتھ نہیں ہے جیسا کہ ہم اپنی آنکھ کے سوراخ کے ساتھ دیکھتے ہیں اور اُس سے کوئی اور فائدہ نہیں لیتے۔ لیکن خدا دیکھنے والا ہے اور جس چیز کی طرف بھی دیکھا جا سکتا ہے، وہ اُس سے لا علم نہیں ہے۔ پس وہ دیکھنے والے نام میں ہمارے ساتھ شریک ہے لیکن معنی میں مختلف ہے۔
وہ قائم ہے، نہ اس معنی کے ساتھ کہ وہ سیدھا کھڑا ہے اور اپنا وزن پنڈلی پر ڈالے ہوئے ہے۔ جیسا کہ دوسری چیزیں اس طرح کھڑی ہوئی ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ محافظ اور نگہداری کرنے والا ہے۔ جیسا کہ کوئی کہتا ہے کہ فلاں ہمارے امر کے ساتھ قائم ہے۔ خدا ہر جان پر اُس کی نسبت جو اُس نے انجام دیا ہے، قائم اور مسلط ہے۔ لوگوں کی زبان میں قائم باقی کے معنی میں بھی ہے اور سرپرستی کا معنی بھی دیتا ہے۔ جیسا کہ تم کسی کو کہتے ہو کہ فلاں شخص کی اولاد کے معاملہ میں قیام کرو، یعنی اُن کی سرپرستی کرو۔ ہم میں سے قائم اُسی کو کہتے ہیں جو پاؤں پر سیدھا کھڑا ہو۔ پس نام میں اُس کے ساتھ شریک ہوگئے اور معنی میں شریک نہ ہوئے۔ لطیف کا مطلب کمی، باریکی یا چھوٹا ہونا نہیں ہے بلکہ چیزوں میں نفوذ کرجانا اور (احاطہ علمی رکھنا ) اور دیکھا نہ جانا مراد ہے ، جیسا کہ تم کسی شخص کو کہتے ہو کہ یہ کام مجھ سے لطیف ہوا۔ فلاں شخص کردار اور گفتگو میں لطیف ہے۔ تم اُسے بتلا رہے ہو کہ اس معاملہ میں میری عقل جواب دے گئی ہے اور دسترس اس کام میں ممکن نہیں ہے۔ یہ کام اتنا باریک اور گہرا ہوچکا ہے کہ فکر اس کو درک نہیں کر سکتی۔ اسی طرح خدا کا لطیف ہونا اس نظر سے ہے کہ وہ کسی حدووصف کے ذریعے سے درک نہیں ہو سکتا۔ ہماری لطافت کمی اور چھوٹا ہونے کے لحاظ سے ہے۔ پس ہم اُسی کے نام میں شریک ہوگئے لیکن معنی مختلف ہے۔
خبیر اُسے کہتے ہیں کہ کوئی چیز اُس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کوئی چیز اُس کے ہاتھ سے دور نہیں ہے۔ خداکا خبیر ہونا چیزوں کے آزمانے اور تعبیر کرنے کے لحاظ سے نہیں ہے۔ اگر تجربہ اور تعبیر کرنا ہے تو وہ جانتا ہے اور اگرتجربہ اور تعبیر نہیں ہے تو وہ نہیں جانتا کیونکہ جو ایسا ہو وہ جاہل ہوتا ہے۔ ہمیشہ اپنی مخلوق کے متعلق علم رکھنے والا ہے۔ لیکن لوگوں کے درمیان جاننے والا اُسے کہتے ہیں کہ جہالت کے ساتھ کسی صاحبِ علم کے پاس علم سیکھے( کہ وہ جہالت کے بعد صاحبِ علم ہوا ہو) ۔پس اُسی کے نام میں شریک ہیں اور معنی مختلف ہے۔
بہرحال خدا کا ظاہر ہونا اس لحاظ سے نہیں ہے کہ وہ چیزوں کے سامنے ظاہر ہوا ہے اور سوار ہوگیا ہے اور اُن پر بیٹھ گیا ہے، اوپر آگیا ہے بلکہ غلبہ ، تسلط اور قدرت کے ذریعے چیزوں کے اوپر ہے جیسا کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ میں نے دشمنوں پر غلبہ حاصل کرلیا۔
خدا نے مجھے دشمنوں پر غالب کیا ہے۔ وہ کامیابی اور غلبہ کے متعلق خبر دیتا ہے۔ اسی طرح ہے خدا کا غلبہ چیزوں پر۔
ظاہر ہونے کا دوسرا معنی یہ ہے کہ جو کوئی بھی اُسے طلب کرتا ہے، اُ س کیلئے ظاہر ہے(اور خدا کے لئے تمام چیزیں ظاہر ہیں) ۔کوئی چیز اُس سے پوشیدہ نہیں ہے اور جو کچھ اُس نے پیدا کیا ہے، اُس کی تدبیر کرنے والا ہے۔ کون سا ظاہر اللہ تبارک و تعالیٰ سے ظاہر تر اور روشن تر ہے کیونکہ جس طرف بھی تم نظر کرو، اُس کی صنف موجود ہے۔ خود تیرے وجود میں اُس کے بہت سارے آثار موجود ہیں۔ ہم میں سے ظاہر وہ ہے جو خود آشکار، محدود اور معین ہو۔ پس نام میں شریک ہیں اور معنی میں مختلف ہیں۔
خدا کے باطن ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ چیزوں کے اندر ہے بلکہ باطن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اُس کا علم، نگہداری اور تدبیر چیزوں کے اندر تک جاسکتی ہے۔ جیسا کہ کوئی کہتا ہے کہ میں اچھی طرح باخبر ہوگیا ہوں اور اُس کے پوشیدہ راز کو جانتاہوں۔ ہمارے درمیان باطن وہ ہے جو چیزوں کے درمیان گم ہوگیا ہو اور چھپ گیا ہو۔ پس ہم نام میں شریک ہیں اور معنی میں مختلف ہیں۔
خدا کے قاہر ہونے سے مراد رنج و زحمت، چارہ جوئی، پیارومحبت اور فریب و دھوکا نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض بندوں میں سے دوسرے بعض پر غلبہ حاصل کرتے ہیں اور مغلوب غالب آجاتا ہے اور غالب مغلوب ہوجاتا ہے۔ لیکن خداکا قاہر ہونا یہ ہے کہ اُس کی تمام مخلوق اُس کے مقابلے میں ذلت اور خواری کا لباس پہنے ہوئے ہے۔ان کے بارے میں خدا جس چیز کا ارادہ کرتا ہے، وہ اس سے انکار نہیں کر سکتے۔ آنکھ جھپکنے کے برابر بھی اُس کی حکومت سے ،جو یہ کہتا ہے کہ ہوجا، بس وہ ہوجاتا ہے۔ خارج نہیں ہیں۔ ہمارے درمیان قاہر اس طرح کا ہوتا ہے جیسے میں نے بیان کیا اور اُس کا وصف کیا۔ پس ہم نام میں شریک ہیں اور معنی میں مختلف ہیں۔
خدا کے تمام نام اسی طرح ہیں اور ہم نے اگر تمام ناموں کو بیان نہیں کیا تو اس لئے کہ جتنے نام ہم نے لئے ہیں، نصیحت اور فکر کرنے کیلئے کافی ہیں۔
تیرا خدا ہدایت اور ہماری توفیق میں ہمارا اور تمہارا مددگار ہو۔(کافی:ج۱،ص۱۲۰)۔

۵۔ اسمائے الٰہی کے حدوث میں آنحضرت کا کلام
ابن سنان سے روایت ہے ، وہ کہتا ہے: میں نے امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا خدا مخلوق کوخلق کرنے سے پہلے اپنی ذات کو پہچانتا تھا؟
آپ نے فرمایا: ہاں۔
میں نے کہا:وہ اُسے دیکھتا تھا اور سنتا تھا؟ آپ نے فرمایا:
اسے اس کی ضرورت نہ تھی کیونکہ نہ اُس سے کوئی سوال رکھتا تھا اور نہ کوئی خواہش ، وہ صرف خود ہی خود تھا۔ اُس کی قدرت نافذ تھی۔ پس اُسے ضرورت نہ تھی کہ اپنی ذات کو کوئی نام دے۔ لیکن اُس نے اپنے لئے کچھ نام چنے تاکہ دوسرے اُن کے ساتھ اُسے بلائیں کیونکہ اگر وہ اپنے نام کے ساتھ پکارا نہ جاتا تھا تو پکارا نہ جاتا۔
سب سے پہلے جس نام کا انتخاب کیا، وہ علی عظیم تھا کیونکہ وہ تمام چیزوں سے افضل ہے۔ اُس کا نام(اُس کی ذات کے اعتبار سے) اللہ ہے اور (صفات کے اعتبار سے) علی عظیم ہے۔ جو سب ناموں سے اُس کا پہلا نام ہے اور ہر چیز سے بلند تر ہے۔(کافی:ج۱،ص۱۱۳)۔
۶۔ آنحضرت کا کلام جہان کے حادث ہونے میں اور اسکے پیدا کرنے والے کے ثابت ہونے میں
ایک زندیق شخص آنحضرت کے پاس آیا ۔آپ کے پاس کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: مجھے بتاؤ کہ اگر تمہاری بات حق ہو جبکہ ایسا نہیں ہے، مگر ہم اور تم برابر بھی نہیں ہیں۔ وہ جو ہم نے نمازپڑھی، روزہ رکھا، زکوٰة دی اور ایمان لائے، ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ وہ مرد خاموش رہا۔
پھر امام علیہ السلام نے فرمایا: اگر حق بات ہماری بات ہو کہ یہ درست ہے، کیا ایسا نہیں ہے کہ تم ہلاک ہوئے اور ہم نجات پاگئے؟
اُس مرد نے کہا: خدا آپ پر رحمت کرے ۔ مجھے سمجھائیں کہ خدا کس طرح کا ہے اور کہاں ہے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا: تجھ پر ہلاکت ہو۔ جس راستے پر تو گیا ، وہ غلط ہے۔ اُس نے مکان کو بنایا بغیر اس کے کہ اُس کیلئے مکان ہو۔ اُس نے کس طرح کو کس طرح بنایا،بغیر اس کے کہ خود اُس کے لئے کیفیت اور کوئی حالت وجود رکھتی ہو۔ پس خدا کسی کیفیت اور مکان میں آنے سے نہیں پہچانا جاتا اور کسی حس کے ساتھ درک نہیں ہوتا۔ کسی چیز کے ساتھ اُس کا قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
اُس شخص نے کہا: پس جب وہ کسی حس کے ساتھ درک نہیں ہوتا تو وہ کوئی چیز نہ ہوا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: تجھ پر ہلاکت ہو۔ جب تیرے حواس اُس کو درک کرنے سے عاجز ہوئے تو اُس کی ربوبیت کے منکر ہوگئے۔ لیکن جب ہمارے حواس اُس کو درک کرنے سے عاجز ہوئے تو ہم نے یقین کرلیا کہ وہ ہمارا پروردگار ہے جو تمام چیزوں کے برخلا ف ہے۔ اُس مرد نے کہا: پس آپ بتائیں خدا کس زمانے سے ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: تو مجھے یہ بتاؤ کہ کون سا زمانہ تھا کہ وہ نہ تھا تاکہ میں بتاسکوں کہ وہ کس زمانے سے تھا؟
اُس مرد نے کہا: اُس کے وجود پر دلیل کیا ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: جب میں نے اپنے بدن کو دیکھا اور غور کیاکہ اس کے طول و عرض میں نہ تو میں کوئی کمی کرسکتا ہوں اور نہ زیادتی، نہ کسی نقصان و بدی کو اپنے سے دور کرسکتا ہوں اور نہ کسی فائدہ اور خوبی کو اس تک پہنچا سکتا ہوں تو میں نے یقین کر لیا کہ اس عمارت کو بنانے والا کوئی ہے اور میں نے اُس کے وجود کا اعتراف کرلیا۔ اس کے علاوہ میں دیکھتا ہوں کہ فلک کی حرکت اس کی قدرت سے ہے۔ بادلوں کا پیدا ہونا، ہواؤں کا چلنا، سورج، چاند اور ستاروں کا چلنا، اس کے علاوہ دوسری حیرت انگیز اور واضح نشانیاں جب دیکھیں تو میں جان گیا کہ ان تمام چیزوں کیلئے کوئی بنانے والا اور ایجاد کرنے والا ہے۔
اُس مرد نے کہا: پس آنکھیں اُس کو دیکھ کیوں نہیں سکتیں؟
امام علیہ السلام نے فرمایا:اس وجہ سے جو اُس کے اور اُس کی مخلوقات، انسان سے لے
کر دوسری موجودات تک فرق موجود ہے کہ انہیں آنکھوں کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کہ وہ اس سے برتر ہے کہ آنکھ کے ساتھ دیکھا جاسکے یا وہم اُس کا احاطہ کرسکے یا کوئی عقل اُس کو پاسکے۔
اُس مرد نے کہا:اُس کی حدود کو میرے لئے بیان کیجئے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: اُس کیلئے کوئی حد نہیں ہے۔
اُس نے کہا: وہ اس طرح کیوں ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: کیونکہ ہرچیز متناہی ہے اور جہاں بھی محدودیت کا احتمال دیا جائے وہاں بہت زیادہ احتمالات پیدا ہوتے ہیں۔ جہاں زیادہ احتمالات کا وجود ہو، وہاں احتمال کا کم ہونا بھی وجود رکھتا ہے۔ پس وہ نا محدود ہے، بڑھنے کے قابل نہیں ہے۔ وہ کمی کے بغیر ہے اور قابلِ ترکیب نہیں ہے۔ وہم اُس تک نہیں پہنچ سکتے۔(کافی:ج۱،ص۷۸)۔

۷۔ آنحضرت کا کلام اس جہان کے حادث ہونے کی دلیل میں
ایک مرد آپ علیہ السلام کے پاس آیااور کہا: اے فرزند ِرسول!اس جہان کے حادث ہونے پر کیا دلیل ہے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا: تو نہ تھا اور ہوگیا اور یہ بھی تو جانتا ہے کہ تو نے خود اپنے آپ کو پیدا نہیں کیا۔ جو تیری طرح ہیں، انہوں نے بھی تجھے پیدا نہیں کیا۔(عیون الاخبار:ج۱،ص۱۳۴)۔

۸۔ آنحضرت کا کلام کون و مکان میں
ایک مرد آنحضرت کے پاس آیا اور سوال کیا: میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں۔ اگرجو کچھ میں جانتا ہوں اُس کا جواب دو تو میں آپ کی امامت کا معتقد ہوجاؤں گا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: جو چاہتے ہو، پوچھو۔
اُس نے کہا: مجھے بتائیے، پروردگار کب سے ہے اور کہاں تھا اور کیسا تھااو رکس چیز پر اعتماد کئے ہوئے ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا نے مکان کو مکان بنایا ، بغیر اس کے کہ خود کوئی مکان رکھتا ہو اور کیفیت کو کیفیت بنایا ، بغیر اس کے کہ خود کیفیت رکھتا ہو ۔ وہ اپنی ذات پر اعتماد رکھتا ہے۔(کافی:ج۱،ص۸۸)۔

۹۔ آنحضرت کا کلام روٴ یت خدا کے ابطال میں
ابی ہاشم جعفری سے روایت ہے کہ وہ کہتا ہے کہ میں نے امام علیہ السلام سے سوال کیا کہ کیا خدا کی توصیف کی جاسکتی ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا ہے؟ میں نے کہا: ہاں پڑھا ہے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا خدا کا یہ قول نہیں پڑھا کہ فرماتا ہے:"آنکھیں اُس کو درک نہیں کر سکتیں اور وہ اُن کو درک کرسکتا ہے"۔ میں نے کہا: ہاں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: تم جانتے ہو کہ ابصار کیا ہے؟ میں نے کہا: آنکھوں کا دیکھنا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: دلوں کے اوہام آنکھوں کے دیکھنے سے قوی تر ہیں۔ خاطرات اُس کو درک نہیں کرسکتے۔ وہ دلوں کے اوہام کو درک کر سکتا ہے۔(کافی:ج۱،ص۹۸)۔

۱۰۔ آنحضرت کا کلام روٴ یت خدا کی نفی میں
ذوالہ یاستین کہتا ہے کہ میں نے امام علیہ السلام سے عرض کیا: آپ پر فداہوجاؤں، خدا کے دیکھنے کے متعلق لوگوں کے درمیان کوئی اختلاف ہے تو اس کے بارے میں مجھے بتائیں۔ایک گروہ کہتا ہے کہ خدا دیکھا نہیں جائے گا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: اے ابوالعباس!جوکوئی بھی خدا کی اس کے علاوہ توصیف کرے جو خود اُس نے اپنی توصیف کی ہے تو اس نے خدا پر ایک بہت بڑی تہمت لگائی ہے۔ خدا فرماتا ہے:"ابصاراُس کو دیکھ نہیں سکتیں، وہ ابصار کو دیکھ سکتا ہے، وہ عالم اور باخبر ہے"۔ ابصار سے مراد ظاہری آنکھیں نہیں ہیں بلکہ وہ آنکھیں مراد ہیں جو دل میں پائی جاتی ہیں۔ انسانی وہم وخیال اُس تک نہیں پہنچ سکتے اور اُسے درک نہیں کرسکتے۔ یہ ظاہری آنکھیں اُسے کیسے درک کرسکتی ہیں؟(بحار:ج۴،ص۵۳)۔

۱۱۔ آنحضرت کا کلام خدا کے جسم کی نفی کے متعلق
محمد بن زید سے روایت ہے کہ وہ کہتا ہے: میں امام علیہ السلا م کے پاس آیا اور امام سے توحید کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے ان مطالب کو مجھ پر بیان کیا تاکہ لکھ سکوں۔
تعریف ہے اُس خدا کی جس نے تمام چیزوں کو نقشہ اور مقدمات کے بغیر پیدا کیا۔ اپنی قدرت و حکمت کے ذریعے سے ان کو پیدا کیا۔ چیزوں کو کسی چیز سے پیدا نہیں کیا کہ اختراع صادق نہ آئے۔ علت اور سبب درمیان میں نہیں تھا کہ نئے سرے سے پیدا کرنا صادق نہ آئے۔ جس کو چاہا، جس طرح چاہا، اپنی توحید کے ساتھ، اپنی حکمت اورربوبیت کی حقیقت کے اظہار کے لئے پیدا کیا۔ عقلیں اُس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ وہم اُس تک نہیں پہنچ سکتے۔ افکار اس کا ادراک نہیں رکھتے اور وہ اندازہ میں نہیں آسکتا۔
عبارتیں اُس کی توصیف نہیں کر سکتیں۔ فکریں اُس کے درک سے عاجز ہیں۔ ہر قسم کی تعریف اس کے مقام تک نہیں پہنچ سکتی۔ بغیر پردہ کے چھپا ہو اہے اور بغیرچھپانے والی چیز کے وہ پوشیدہ ہے۔ بغیر دیکھنے کے وہ پہچانا گیا۔ تصور کے بغیر اُس کی تعریف کی گئی۔ بغیر جسم کے اُس کا وصف بیان کیا گیا۔ کوئی معبود نہیں ہے سوائے اللہ کے جو بہت بڑا اور بلند تر ہے۔(کافی:ج۱،ص۱۰۵)۔

۱۲۔ آنحضرت کا کلام اس چیز کی نہی میں کہخدا کی تعریف کی جائے اُس کے علاوہ جو خود اُس نے کی ہے
اے اللہ! تو پاک و پاکیزہ ہے۔ تجھے انہوں نے نہیں پہچانا اور تیری وحدانیت کونہیں جانا۔ اس وجہ سے انہوں نے تیرے لئے کچھ صفات کو چن لیا ہے۔ تو پاک و پاکیزہ ہے۔ اگر انہوں نے تجھے پہچانا ہوتا تو تیری اُس طرح توصیف کرتا جیسے خود تو نے کی ہے۔ تو پاک و پاکیزہ ہے۔ انہوں نے کس طرح خود کو اجازت دی ہے کہ تجھے دوسرے کے ساتھ تشبیہ دیں۔
اے اللہ! میں تیری اُس کے علاوہ تعریف نہیں کرتا جس کے ساتھ تو خود تعریف کرتا ہے۔ تجھے تیری مخلوق کی طرح قرار نہیں دیتا۔ تو ہراچھائی کے لائق ہے۔ پس مجھے ظالموں میں سے قرار نہ دے ۔ جو کچھ تمہارے ذہن میں آتا ہے، خدا کو اُس کے علاوہ قرار دو۔
ہم آلِ محمددرمیانہ راستہ ہیں کہ حد سے بڑھ جانے والا ہم تک نہیں پہنچ سکتا اور پیچھے رہنے والا ہم سے آگے نہیں نکل سکتا۔(کافی:ج۱،ص۱۰۰)۔

۱۳۔ آنحضرت کا کلام مشیت اور ارادہ میں
مشیت اس طرح ہے جیسے کسی کام کے انجام دینے میں اہتمام کیا جاتا ہے اور ارادہ اُس کام کے تمام کرنے کو کہتے ہیں۔(عددالقویۃ:۲۹۹،بحار:ج۷۸،ص۳۵۵)۔

۱۴۔ آنحضرت کا کلام مشیت اور ارادہ کے متعلق
آنحضرت سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایاکہ خدا فرماتا ہے: اے آدم کے بیٹے! میری چاہت کے ساتھ جو تو اپنے لئے چاہتا ہے، اُس پر قادر ہے اور میری طاقت کے ساتھ تو میرے واجبات کو انجام دیتا ہے۔یہ میری نعمت ہے کہ تو میری نافرمانی پر طاقت رکھتا ہے۔ میں نے تجھے سننے والا، دیکھنے والا اور طاقتور قرار دیا ہے۔ جو نیکی بھی تجھ تک پہنچتی ہے، وہ میری طرف سے ہے اور جو بدی بھی تجھ تک پہنچتی ہے، وہ خود تیری طرف سے ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ میں تیرے اچھے کاموں میں تجھ سے زیادہ لائق ہوں(کیونکہ یہ خدا کی نعمتیں تھیں) اور تو اپنے بُرے کاموں میں مجھ سے زیادہ لائق ہے(کیونکہ وہ راہِ حق سے منحرف ہوگیا ہے) ۔ میں جو کرتا ہوں، اُس کے متعلق مجھ سے پوچھا نہیں جائے گا (کیونکہ جو کچھ بھی کیا، خیر اور احسان تھا)۔ لیکن لوگوں سے پوچھا جائے گا(کیونکہ ان نعمتوں کا استعمال یا خدا کی مرضی میں ہے یا راہِ حق سے انحراف میں ہے)۔(کافی:ج۱،ص۱۵۲)۔

۱۵۔ آنحضرت کا کلام قدرت اور ارادہ کے متعلق
مشیت خدا کے فعل کی صفات میں سے ہے۔جو یہ خیال کرے کہ خدا ہمیشہ سے (ازل سے) ارادہ کرنے والا ہے۔ تو وہ توحید کا قائل نہیں ہے۔(بحار:ج۴،ص۱۴۵)۔

۱۶۔ آنحضرت کا کلام اس میں کہ خدا جسے چاہے مقدم اور موٴخر کرسکتا ہے
سلمان مروزی کی حدیث میں ہے کہ اُس نے کہا کہ امام علیہ السلام سے عرض کیا کہ کیا آپ مجھے اس آیت"ہم نے اسے شب ِقدر میں نازل کیا"، کے متعلق نہیں بتلائیں گے کہ کس بارے میں نازل ہوئی ہے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا:اے سلمان! خدا شب ِقدرمیں جو کچھ آئندہ سال تک انجام پانا ہوتا ہے، زندگی، موت، خیر و شر اور روزی میں سے مقدر کرتا ہے اور جو اس شب میں مقدر ہوتا ہے، وہ حتمی ہوتا ہے۔
سلمان کہتا ہے:اب معلوم ہوا۔ میں آپ پر قربان جاؤں۔ کچھ زیادہ وضاحت فرمائیں۔
آپ نے فرمایا: کچھ معاملات خدا کے نزدیک ایسے ہیں جو خدا کے نزدیک موجود اور موقوف ہیں۔ ان میں سے جس کو وہ چاہتا ہے، مقدم قرار دے یا موٴخر۔ اے سلمان! حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:علم دو طرح کے ہیں۔ ایک علم وہ ہے جو خدا نے اپنے فرشتوں اور رسولوں کو دیا ہے۔ جو علم ان کو دیا ہے، وہ برخلاف نہیں ہوگا۔ وہ ہوکر رہے گا اور خدا اپنے ساتھ، فرشتوں کے ساتھ اور رسولوں کے ساتھ جھوٹ نہیں بولتا۔ایک علم وہ ہے جو خدا کے نزدیک خزانہ ہے۔ کوئی بھی اس کی خبر نہیں رکھتا۔ اس علم میں سے جس کو چاہتا ہے، مقدم و موٴخر کرتا ہے اور مٹا دیتا ہے اور ثابت رکھتا ہے۔(بحار:ج۴،ص۹۵)۔

۱۷۔ آنحضرت کا کلام اس کے متعلق جو خدا کو کسی مخلوق کے ساتھ تشبیہ دیتا ہے
جو کوئی بھی خدا کو اُس کی مخلوق کے ساتھ تشبیہ دے، وہ مشرک ہے۔ جو کوئی خدا کی طرف اُن چیزوں کی نسبت دے، جن سے روکا ہے، وہ کافر ہے۔ (عیون الاخبار:ج۱،ص۱۱۴)۔

۱۸۔ آنحضرت کا کلام خدا کی معرفت کے کم ترین مرتبہ میں
فتح بن یزید کہتا ہے: امام علیہ السلام سے خدا کی معرفت کے کم ترین مرتبہ کے متعلق سوال کیا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
یہ اقرار کرنا کہ اُس کے سواکوئی معبو دنہیں ہے۔ وہ شبیہ نہیں رکھتا۔ اُس کی ہم مثل کوئی نہیں ہے اور یہ کہ وہ ازلی تھا اور ہمیشہ وجود رکھے گا۔ اُس کی طرح کوئی چیز نہیں ہے۔(عیون الاخبار:ج۱،ص۱۱۴)۔

۱۹۔ آنحضرت کا کلام انسان کے اپنے اعمال کے اختیار رکھنے کی کیفیت کے بیان میں
امام علیہ السلام نے اُس شخص سے فرمایا جو یہ کہتا تھا کہ خدا نے بندوں کے اعمال خود بندوں کے سپرد کردئیے ہیں۔
لوگ اس بارے میں ضعیف تر اور کم تر ہیں کہ اس کام کی قابلیت رکھتے ہوں۔
اُس نے کہا: کیا اُس نے لوگوں کو مجبور بنایا ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: وہ عادل تر اور بلند تر ہے اس سے کہ وہ اس طرح کرے۔
اُس نے کہا: یہ کس طرح ممکن ہے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا: خدا نے ان کو امر اور نہی کی ہے۔ جس کے متعلق امرونہی کی ہے، اُس پر ان کو قدرت دی ہے۔(عددالقویۃ:۲۹۸)۔

۲۰۔ آنحضرت کا کلام انسان کے اعمالمیں اختیار کی کیفیت کے بیان میں
فضل بن حسن بن سہل نے آنحضرت سے پوچھا: کیا لوگ مجبور ہیں؟
آپ نے فرمایا: خدا اس سے عادل تر ہے کہ وہ لوگوں کو مجبور کرے اور انہیں عذاب دے۔اُس نے کہا: کیا لوگ اپنے اعمال میں آزاد ہیں؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اس سے حاکم تر ہے کہ اپنے بندے کو آزاد کردے اور اُسے خوداُس کے سہارے پر چھوڑ دے۔(عددالقویۃ:۲۹۹،بحار:ج۷۸،ص۳۵۴)۔

۲۱۔ آنحضرت کا کلام انسان کے اپنے اعمال میں اختیار کی کیفیت میں
وشاء سے روایت ہے ، وہ کہتا ہے: امام علیہ السلام سے سوال کیا اور کہا: کیا خدا نے کام اپنے بندوں کے سپرد کردیا ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا اس سے قادر تر ہے۔
میں نے کہا: پس کیا ان کو گناہ پر مجبور کردیا ہے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا:اللہ تعالیٰ اس سے عادل تر اور دانا تر ہے۔
پس پھر فرمایا: خدا فرماتا ہے: اے آدم کے بیٹے! میں تیرے نیک کاموں میں تجھ سے لائق تر ہوں اور تو اپنے بُرے کاموں میں مجھ سے زیادہ لائق ہے۔تو اُس طاقت کی وجہ سے گناہ کا ارتکاب کرنا جو میں نے تیرے وجود میں رکھی ہے۔(عیون الاخبار:ج۱،ص۱۴۳)۔

۲۲۔ آنحضرت کا کلام انسان کے اعمال میں اُسکے اختیار کی کیفیت کے بیان میں
یزید بن عمیر شامی کہتا ہے کہ میں شہر مرو میں امام کے پاس گیا اور عرض کیا:
اے فرزند ِرسول! امام صادق علیہ السلام سے ہمارے لئے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا: جبر اور تفویض باطل ہے۔ معاملہ دو چیزوں کے درمیان درست ہے۔ اس جملہ کا کیا معنی ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا:جو یہ گمان کرتا ہے کہ ہمارے اعمال خدا انجام دیتا ہے اور پھر اس کے سبب سے ہمیں عذاب کرے گا تو وہ جبر کا قائل ہوا اور جویہ گمان کرتا ہے کہ خدا نے موجودات اور روزی کا اختیار اماموں کے سپرد کردیا ہے۔ وہ تفویض کا قائل ہوا ہے۔ جو جبر کا قائل ہو ، وہ کافر ہے اور جو تفویض کا قائل ہو، وہ مشرک ہے۔
میں نے عرض کیا: اے فرزند ِرسول!معاملہ دو کے درمیان ہے ، اس کا کیا معنی ہے؟
آپ نے فرمایا: اس سے مراد انسان کی آزادی ہے۔ اُس کے انجام دینے کے لحاظ سے جس کا حکم ہوا ہے اور اُس کے ترک کرنے کے لحاظ سے جس کے متعلق نہی ہوئی ہے۔
میں نے عرض کیا: کیا اس مقام پر خدا کا ارادہ اور خواہش بھی مطرح ہے۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا:خدا کی خواہش اور ارادہ اطاعت کے مقام میں وہی خدا کا حکم ہے۔ اطاعت کے متعلق اُس کی خوشنودی اور اُس کی ہر مدد ہے۔ گناہوں میں خدا کی خواہش اور ارادہ یہ ہے کہ وہ اس میں نہی کرتا ہے۔ اس کے انجام دینے میں غضبناک ہوتا اور ان گناہوں کے انجام دینے پر عتاب و عذاب کرتا ہے۔میں نے کہا: کیا اس مقام پر خدا کوئی حکم بھی رکھتا ہے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں۔ ہر کام اچھا ہو یا بُرا، جو بندے انجام دیتے ہیں، خدااس کے متعلق حکم رکھتا ہے۔
میں نے کہا: خدا کے حکم کا معنی کیا ہے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا: خدا کا حکم ان پر یہ ہے کہ وہ ثواب اور عتاب میں سے ، جس کے وہ مستحق ہیں، دنیا وآخرت میں ان کو دے گا۔(عیون الاخبار:ج۱،ص۱۲۴)۔

۲۳۔ آنحضرت کا کلام انسان کے اعمال میں اختیار کی کیفیت کے بیان میں
روایت ہے کہ آنحضرت کے نزدیک جبر اور تفویض کے متعلق بات ہوئی۔ امام نے فرمایا:خدا کی مجبوری کے ساتھ اطاعت نہیں کی گئی۔غلبہ کے ساتھ اُس کی نافرمانی نہیں کی گئی۔ بندوں کے کاموں کو مہمل نہیں چھوڑا۔ اُس نے بندوں کو جو چیزیں دی ہیں، اُن کا وہ مالک ہے۔ جس پر اُن کو طاقت دی ہے، قدرت رکھتا ہے۔ اگر بندے اُس کی اطاعت کریں تو خدا نے اُن کو اس کام سے منع نہیں کیا اور اُن کو روکتا نہیں ہے۔ اگر نافرمانی کا ارادہ کرتے ہیں تو خدا اگر چاہے کہ ان کو گناہ سے روکے تو خدا ان کے اور گناہ کے درمیان مانع پیدا کردیتا ہے۔ اگر وہ ان کے اور گناہ کے درمیان مانع پیدا نہ کرے اور وہ گناہ کو انجام دیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کو گناہوں میں نہیں ڈالا۔(عیون الاخبار:ج۱،ص۱۴۴)۔

۲۴۔ آنحضرت کا کلام انسان کے اعمال میں اختیار کی کیفیت کے متعلق
بعض اصحاب نے امام علیہ السلام سے عرض کی کہ امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:
جبر اور تفویض باطل ہیں اور معاملہ ان دو کے درمیان درست ہے۔ اس قول کا کیا معنی ہے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا: جو یہ خیال کرتا ہے کہ خدا نے اپنی خلقت اور روزی کا معاملہ اپنے بندوں کے سپرد کردیا ہے تو وہ تفویض کا قائل ہے۔
میں نے کہا: اے فرزند ِرسول!کیا تفویض کا قائل مشرک ہے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں۔ جو بھی اس کا قائل ہو کہ بندے مجبور ہیں ، اُس نے خداپر ظلم کیا ہے۔
میں نے عرض کی: اے فرزند ِرسول!معاملہ دو کے درمیان ہے، کیا مطلب ہے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا: جس کا حکم ہوا ہے، اُس کو بجا لانے اور جس کی نہی ہوئی ہے، اُس کے ترک کرنے پر طاقت مراد ہے۔(عددالقویۃ:۲۹۸)۔

۲۵۔ آنحضرت کا کلام اُس کے متعلق جو جبر کا قائل ہے
جو بھی جبر کا قائل ہے، اُسے زکوٰة نہ دو، اُس کی گواہی کو قبول نہ کرو۔ خدا لوگوں کی طاقت کے اندازہ کے مطابق اُن کو تکلیف دیتا ہے اور طاقت سے زیادہ اُن پر بوجھ نہیں ڈالتا۔ جو کوئی بھی کسی کام کو انجام دے گا، اُس کا نتیجہ اُسے مل کر رہے گا۔ کوئی دوسرے کے بوجھ کو نہیں اٹھائے گا۔(عیون الاخبار:ج۱،ص۱۳۴)۔

۲۶۔ آنحضرت کا کلام سورة توحید کی فضیلت میں
عبدالعزیز بن مہتدی سے روایت ہے ،وہ کہتا ہے کہ امام سے توحید کے متعلق سوال کیا۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا:جو کوئی بھی سورة توحید کو پڑھے اور اُس پر ایمان لائے تو اُس نے توحید کو پہچان لیا۔میں نے کہا: اسے کس طرح پڑھیں؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا: جیسے لوگ پڑھتے ہیں اور پڑھنے کے بعد اضافہ فرمایا کہ دو مرتبہ پڑھو۔ ایسا ہی ہے میرا پروردگار۔(کافی:ج۱،ص۹۱)۔

۲۷۔ آنحضرت کا کلام رسولِ خدا کے اس قول کے متعلق
کہ"خدا نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے"
حسین بن خالد روایت کرتا ہے کہ امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا:اے فرزند ِرسول!لوگ روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کواپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
خدا اُن کو قتل کرے۔ انہوں نے حدیث کے اوّل حصے کو حذف کردیا ہے۔ رسولِ خدا دو ایسے آدمیوں کے پاس سے گزرے جو ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے تھے۔ ایک دوسرے کو کہہ رہا تھا کہ خدا تیرے چہرے کو اور جس کا چہرہ تیری طرح ہے، اُس کے چہرے کو بُرا کرے۔رسولِ خدا نے فرمایا: اے بندئہ خدا! اپنے بھائی کو ایسی بات نہ کہہ۔ خدا نے حضرت آدم کے چہرے کو اُس کی صورت کی طرح پیدا کیا ہے۔(عیون الاخبار:ج۱،ص۱۱۹)۔

۲۸۔ آنحضرت کا کلام تناسخ کے ابطال میں
جو کوئی بھی تناسخ کا قائل ہے (یعنی روح کا منتقل ہونا ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف)اُس نے خدا کے ساتھ کفر کیا ہے اور جنت و دوزخ کو جھٹلایا ہے۔(عیون الاخبار۔بحار:ج۴،ص۳۲۰)۔

 

No comments:

Post a Comment